محبت کی آخری کتاب سے خوبصورت اقتباس

محبت کی آخری کتاب سے خوبصورت اقتباس
یوسف غوری —لاہور
بات یہ ہے کہ ہم سب کسی نا کسی سطح پہ زخمی ہیں، زخم خوردہ ہیں، لہو لہان ہیں، چوٹیں کھائے ہوئے ہیں، اپنے اپنے درد ، تکلیف اور دکھوں کے ساتھ بلبلا رہے ہیں، ٹیسیں برداشت کررہے ہیں۔ کوئی کسی کا درد نہیں بانٹتا، کسی کا آسرا نہیں بنتا، کسی کا سہارا نہیں بنتا، سب ایک دوسرے سے جھگڑ کر اپنے دکھ کا مداوا کرنا چاہتے ہیں۔ایک دوسرے سے نفرت تعصب حسد اور بغض کا شکار ہوکر دور بھاگنے لگتے ہیں۔ ایسے تو تکلیف میں مزید دوطرفہ اضافہ ہوتا ہے۔ جب تک ایک دوسرے کے درد دکھ کا احساس پیدا نہیں ہوتا کوئی صحت یاب نہیں ہوگا۔ احساس ہی علاج ہے، محبت ہی دوا ہے اور اسی سے سب صحتیاب ہو سکتے ہیں۔ یہ دوا دارو دکانوں سے نہیں بلکہ دل سے محبت و پیار کے دو بول بولنے میں موجود ہے۔
اگر ہم امن اور کاروبار کو برقرار رکھنے کے لیے کھلے دل سے کام کریں تو یہ انسانی تہذیب کا عروج ہوگا۔ تہذیبوں کے عروج کا مطلب امن، ترقی، انصاف اور زیادہ محبت اور زیادہ انسانیت ہے، زیادہ نظم و ضبط ہے۔ اگر ہماری تہذیب میں یہ اوصاف نہیں ہیں تو پھر تہذیب کی خاطر یا زندگی کے لئے ہمیں اب مزید بہتری کی اشد ضرورت ہے۔جو اب لوگ جان چکے ہیں۔پاکستانیوں کو تو بہت پہلے سے ہی پتہ ہے نا! ان امراض کا شکار بھی ہم بہت رہے ہیں۔صدق دل سے منافقت، دوگلا پن، مکاری اور عیاری کو الوداع کہہ دیں تو ہر طرف محبت و احساس کی روشنی پھیلنے سے زندگی صحتمند و توانا ہو جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں