کوءی تو مسیحا بنے،کوءی تو بےبسی کو سنے،کس سے فریاد کریں ،کس سے منصفی چاہیں ؟ ….. پینتیس ہزار (35000) کی آبادی کے لئیے صرف ایک ڈاکٹر۔۔۔۔

چند بیڈز کی ایک ایمرجنسی اور دو تین ڈاکٹر، کبھی اِس سے بھی کم، نہ سامان، نہ ادویات، نہ ٹیسٹ، نہ عملہ

سجاد انصاری

قصور: صحت اور تعلیم ہر معاشرے کی بنیادی ضروریات ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں دونوں کے حالات ابتر ہیں۔

ورلڈ ھیلتھ آگنائزیشن کے مطابق ایک ہزار آبادی کے لئیے کم از کم ایک ڈاکٹر ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں تیرہ سو کی آبادی کے لئیے ایک ڈاکٹر ہے۔

جبکہ چالیس لاکھ آبادی والے شھر قصور میں پینتیس ہزار (35000) کی آبادی کے لئیے صرف ایک ڈاکٹر۔۔۔۔
گزشتہ کئی سالوں سے شھر کی آبادی کئی گنا ہو چکی لیکن ڈاکٹرز کی تعداد آبادی کے تناسب سے نہیں بڑھائی گئی۔ اس شھر کی عوام کے ساتھ ستم ظریفی یہ کہ کئی سیٹس برسوں سے خالی ہیں اور سیکنڑوں ڈاکٹرز اُن پر کام کرنے کے خواہشمند بھی۔ لیکن محکمہ تعیناتی سے ہمیشہ گریزاں رہا ہے۔اس بنیادی مسلے پر شھر کے تمام سیاستدان خاموش، لوکل انتظامیہ خاموش اور مقتدر حلقے خاموش بھی خاموش ہیں۔

چالیس لاکھ آبادی کے لئیے صرف چند بیڈز کی ایک ایمرجنسی اور صرف دو تین ڈاکٹر، کبھی اِس سے بھی کم۔ تین تین وارڈز کی دیکھ بھال پر صرف ایک ڈاکٹر۔ نہ سامان، نہ ادویات، نہ ٹیسٹ، نہ عملہ۔

نتیجہ کیا نکلتا ہے۔۔۔ کسی کو مناسب توجہ نہ ملنے کی شکایت۔ کسی کو بیڈ نہ ملنے کی شکایت۔ کسی کو ادویات کی شکایت۔
کوئی سفارش ڈھونڈتا ہے، کوئی لڑائی کرتا ہے، کوئی گالیاں دیتا ہے۔

ہمیں سمجھنا ہو گا کہ بغیر سہولیات، انتہائی کم سٹاف کے ساتھ بہترین علاج ممکن نہیں ہو سکتا۔

قصور کے مقتدر حلقوں کو ان مسائل کے حل کے لئیے آواز اٹھانا ہو گی۔ اور حکومت وقت کو بھی دیکھنا ہو گا کہ چالیس لاکھ آبادی کے لئیے واحد سرکاری ہسپتال اتنا لاوارث کیوں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں