مردہ بھانجی کو تھامے فلسطینی خاتون کی تصویر نے ایمسٹرڈیم میں ورلڈ پریس فوٹو ایوارڈ جیت لیا

محمد سالم کو اپنے ڈبلیو پی پی ایوارڈ کی خبر انتہائی عاجزی کے ساتھ دی گئی کیونکہ یہ کوئی ایسی تصویر نہیں تھی جس پر جشن منایا جاتا

میڈیا رپورٹرانٹرنیشنل نوائے وقت

ایمسٹرڈیم:برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے فوٹوگرافر محمد سالم کی جانب سے جنگ زدہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بمباری سے شہید پانچ سالہ بھانجی کو سینے سے چمٹائے غم سے نڈھال فلسطینی خاتون کی کھینچی گئی تصویر کو 2024 کی ورلڈ پریس فوٹو کی بہترین تصویر کے ایوارڈ سے نواز دیا گیا۔

یہ تصویر 17 اکتوبر کو جنوبی غزہ میں خان یونس کے ناصر ہسپتال میں لی گئی تھی جہاں اہل خانہ فلسطینی اسرائیلی بمباری سے شہید ہونے والے اپنے رشتہ داروں کو تلاش کر رہے تھے۔

سالم کی اس ایوارڈ یافتہ تصویر میں 36 سالہ خاتون اینس ابو معمر کو دیکھا جا سکتا ہے جو ہسپتال کے مردہ خانے میں کفن میں لپٹی اپنی پانچ سالہ بھانجی کو سینے سے چمٹائے شدت غم سے نڈھال ہیں اور زاروقطار رو رہی ہیں۔

رائٹرز کے گلوبل ایڈیٹر برائے پکچرز اینڈ ویڈیو رکی راجرز نے کہا کہ محمد سالم کو اپنے ڈبلیو پی پی ایوارڈ کی خبر انتہائی عاجزی کے ساتھ دی گئی کیونکہ یہ کوئی ایسی تصویر نہیں تھی جس پر جشن منایا جاتا۔
ایمسٹرڈیم میں منعقد ایک تقریب کے دوران رکی راجرز نے سالم کو ان کے کام کے لیے سراہا کیونکہ ان کے کام کی بدولت اس منظر کو شائع کرکے زیادہ لوگوں پہنچانے میں مدد ملی۔
انہوں نے کہا کہ اس ایوارڈ کے ساتھ مجھے امید ہے کہ دنیا انسانیت بالخصوص بچوں پر مرتب ہونے والے جنگ کے اثرات کے حوالے سے زیادہ باشعور ہو جائے گی۔

سالانہ ایوارڈز کا اعلان کرتے ہوئے ایمسٹرڈیم میں قائم ورلڈ پریس فوٹو نے کہا کہ تنازعات کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو لاحق خطرات کو پہچاننا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بمباری شروع کیے جانے کے بعد سے اب تک اس جنگ کی کوریج کرنے والے 99 صحافی اور میڈیا ملازمین مارے جا چکے ہیں اور اسرائیلی بمباری میں اب تک تقریباً 34ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔

تنظیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر جمانا الزین خوری نے کہا کہ دنیا بھر میں پریس اور دستاویزی فوٹوگرافروں کا کام اکثر زیادہ پرخطر ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے سال غزہ میں مرنے والوں کی تعداد نے صحافیوں کی ہلاکتوں کی تعداد کو بلندی ترین سطح پر پہنچا دیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ دنیا کو جنگ کے انسانیت سوز اثرات کو دکھانے وہ تکلیف کو محسوس کیا جائے جس سے وہ گزرے ہیں۔

39سالہ فلسطینی صحافی 2003 سے رائٹرز کے لیے کام کر رہے ہیں اور انہوں نے 2010 میں بھی ورلڈ پریس فوٹو مقابلے میں ایک ایوارڈ جیتا تھا۔

جیوری نے کہا کہ سالم کی 2024 کی ایوارڈ یافتہ تصویر انتہائی احتیاط اور احترام کے ساتھ کھینچی گئی جو بیک وقت ناقابل تصور نقصان کا استعارہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی دردناک مںظرکشی بھی کرتی ہے۔

جب یہ تصویر پہلی بار نومبر میں شائع ہوئی تھی تو اس وقت سالم نے کہا تھا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ تصویر غزہ کی پٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس وسیع تر احساس کا خلاصہ کرتی ہے۔

انہوں نے تصویر کھینچنے کے لمحے کو مختصر بیان کرتے ہوئے کہا کہ لوگ حواس باختہ تھے، اپنے پیاروں کے بارے میں جاننے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ دوڑ میں مصروف تھے اور ایسے موقع پر میری نظر اس عورت پر پڑی جو چھوٹی بچی کی لاش پکڑی ہوئی تھی اور اس نے وہاں سے جانے سے انکار کر دیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں