ہندو قوم پرست حکومت نے رپورٹنگ کرنا ’بہت مشکل‘ بنا دیا،جنوری میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگنیکٹ کو ایسے ہی الزامات کےتحت دو دہائیوں بعد انڈیا چھوڑنا پڑا
ورلڈ پریس فریڈم انڈکس نے 2023 کی اپنی رپورٹ میں 180 ممالک میں بھارت کو 161 ویں نمبر پر رکھا تھا
پولیٹیکل رپورٹر
نیو دہلی: بھارتی اقلیتوں پرجبر کے بعد مودی سرکار صحافیوں کے پیچھے پڑ گیی ،غیر ملکی صحافیوں سمیت آسڑیلوی صحافی کو ’جبراً انڈیا چھوڑنا‘ پڑ گیا۔
ہندو قوم پرست نریندر مودی حکومت پر تنقید کے بعد ایک آسٹریلوی صحافی کو ’اپنی حد عبور کرنے پر‘ ملک بدر کر دیا گیا جس سے ملک میں پریس کی آزادی کے بارے میں خدشات بڑھ گئے۔
آسٹریلیا کے قومی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز کے جنوبی ایشیا کی بیورو چیف اوانی دیاس نے دعویٰ کیا کہ ہندو قوم پرست حکومت نے ان کے لیے انڈیا سے رپورٹنگ کرنا ’بہت مشکل‘ بنا دیا ہے جس میں گذشتہ ہفتے شروع ہونے والے قومی انتخابات کی کوریج بھی شامل ہے۔
دیاس نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا: ’گذشتہ ہفتے، مجھے اچانک انڈیا چھوڑنا پڑا۔ مودی حکومت نے مجھے بتایا کہ میرے ویزے میں توسیع نہیں کی جائے گی۔ آسٹریلوی حکومت کی مداخلت کے بعد میرے ویزے میں پرواز سے صرف 24 گھنٹے پہلے محض دو ماہ کی توسیع ملی۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ انڈین وزارت کی ہدایت پر مجھے انتخابی عمل کی کوریج کے لیے منظوری نہیں ملے گی۔ ہم کو اس قومی انتخابات کے پہلے دن ملک چھوڑنا پڑا جسے مودی ’جمہوریت کی ماں‘ کہتے ہیں۔‘
اپنے ’لوکنگ فار مودی‘ پوڈ کاسٹ کی آخری قسط میں دیاس، جو جنوری 2022 سے انڈیا میں کام کر رہی ہیں، نے کہا کہ انڈیا کی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے انہیں فون کر کے بتایا کہ ان کے ویزے کی تجدید نہیں کی جائے گی اور انہیں ایک دو ہفتوں میں ملک چھوڑنا پڑے گا۔‘
انہیں بتایا گیا کہ یہ فیصلہ مبینہ طور پر سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی کوریج کی وجہ سے کیا ہے جنہیں گذشتہ سال کینیڈا میں قتل کر دیا گیا تھا۔
ان کے بقول: ’اہلکار نے مجھے خاص طور پر کہا کہ یہ میری سکھ علیحدگی پسند والی خبر کی وجہ سے کیا گیا ہے اور یہ کہ بات بہت آگے نکل گئی ہے۔‘
نجر کے قتل سے انڈیا اور کینیڈا کے درمیان تعلقات اس وقت انتہائی کشیدہ ہوگئے جب وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ان کی حکومت کے پاس 18 جون کے قتل میں انڈین کارندوں کے ملوث ہونے کے قابل اعتماد ثبوت ہیں۔
صحافتی شعبے کی ایک بین الاقوامی تنظیم ‘کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں اس وقت کم از کم سات صحافی جیل میں ہیں۔ رواں سال جنوری میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگنیکٹ نے اعلان کیا تھا کہ وہ تقریباً دو دہائیوں کے بعد بھارت چھوڑ رہی ہیں۔
انہوں نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ انہیں بھارت کی مستقل رہائش یعنی اوورسیز شہریت رکھنے کے باوجود ملک میں بطور صحافی کام کرنے سے روکا جا رہا ہے کیونکہ حکومت ان کی رپورٹنگ کو ”بد نیتی پر مبنی اور تنقیدی‘‘ سمجھتی ہے۔
ورلڈ پریس فریڈم انڈکس نے 2023 کی اپنی رپورٹ میں 180 ممالک میں بھارت کو 161 ویں نمبر پر رکھا تھا۔