بنگلہ دیش:طلبہ کی سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز، حکومت مخالف مظاہروں کی تازہ لہر میں اتوار کو کم از کم 23 اموات، سیکڑوں زخمی،32 بچے بھی مارے گئے

نوائے وقت نیوز

ڈھاکہ:بنگلہ دیش میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین، پولیس اور حکومت کے حامیوں کے درمیان اتوار کو ہونے والی جھڑپوں میں جان سے جانے والوں کی تعداد کم از کم 23 ہو گئی۔

بنگلہ دیش میں طلبہ گروپ کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کردیا گیا ہے، پہلے ہی روز پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے دوران 23 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں، جب کہ مظاہرین وزیراعظم شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسیف کے جنوبی ایشیا کے لیے ریجنل ڈائریکٹر سنجے وجیسیکرا نے بنگلہ دیش میں طلبہ احتجاج سے متعلق ایک بیان جاری کیا۔

اپنے بیان میں یونیسیف کے ریجنل ڈائریکٹر (جنوبی ایشیا) کا کہنا تھا کہ میں گزشتہ ہفتے بنگلہ دیش سے واپس آیا ہوں، اور مجھے حالیہ تشدد اور خاص طور پر بچوں پر جاری بدامنی کے اثرات پر گہری تشویش ہے۔

انہوں نے کہا کہ یونیسیف نے تصدیق کی ہے کہ بنگلہ دیش میں جولائی کے مظاہروں کے دوران کم از کم 32 بچے مارے گئے، اور اس دوران درجنوں زخمی ہوئے اور متعدد کو حراست میں بھی لیا گیا، یہ انتہائی خوفناک صورتحال ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ اموات دارالحکومت ڈھاکہ اور شمالی اضلاع بوگرا، پبنا اور رنگ پور کے علاوہ مغرب میں مگورا، مشرق میں کومیلا اور جنوب میں بریسال اور فینی میں ہوئیں۔

پولیس نے ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور سٹن گرینیڈ استعمال کیے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا کہ وسطی ضلع منسی گنج میں مظاہرین، پولیس اور حکمران جماعت کے کارکنوں کے درمیان تصادم کے دوران کام پر جانے والے دو مزدوروں کی موت ہو گئی اور 30 زخمی ہو گئے۔

ضلعی ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ ابو حنا محمد جمال نے بتایا کہ ’مزدوروں کو گولیاں لگنے کے بعد مردہ حالت میں سپتال لایا گیا۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی گولی نہیں چلائی، تاہم جب کچھ دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد پھٹا تو علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شمال مشرقی ضلع پبنا میں مظاہرین اور حسینہ واجد کی حکمراں جماعت عوامی لیگ کے کارکنوں کے درمیان جھڑپ کے دوران کم از کم تین افراد کی جان گئی اور 50 زخمی ہو گئے۔

ہسپتال کے حکام نے بتایا کہ شمالی ضلع بوگورا میں تشدد میں مزید دو افراد جان سے گئے ہوئے جبکہ چار دیگر اضلاع میں پانچ افراد کی جان گئی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مظاہرین جن کی بڑی تعداد لاٹھیوں سے لیس ہے، حکومتی کریک ڈاؤن کے خلاف اور مزید رعایتوں کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔

ملک گیر احتجاج اور سول نافرمانی کی مہم کے اہم رہنما آصف محمود نے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ ’لڑنے کے لیے تیار رہیں‘۔

اتوار کو فیس بک پر آصف محمود نے لکھا: ’لاٹھیاں تیار کرو اور بنگلہ دیش کو آزاد کراؤ۔‘

ادھر ملک کی فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ ’فوج ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی رہی اور آئندہ بھی ایسا ہی کرے گی۔‘

مظاہروں کے بعد کچھ سابق فوجی افسران طلبہ تحریک میں شامل ہو گئے تھے جب کہ سابق آرمی چیف جنرل اقبال کریم نے مظاہروں کی حمایت کے اظہار میں اپنی فیس بک پروفائل تصویر کو سرخ کر دیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں