خالد لطیف بلوچ
لندن:بنگلہ دیشی طلباء جنہوں نے بغاوت کی قیادت کی تھی، مطالبہ کر رہے ہیں کہ شیخ حسینہ بھارت سے واپس آئیں تاکہ بغاوت کے دوران مظاہرین کے قتل کا مقدمہ چلایا جائے۔
لیکن 76 سالہ بنگلہ دیشی رہنما کو واپس بھیجنے سے بھارت کے جنوبی ایشیا میں اپنے دوسرے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کمزور ہو جانے کا خطرہ ہے، جہاں وہ چین کے اثرورسوخ کو کم کرنے کے لیے شدید جنگ لڑریا ہے۔
تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے تھامس کین کا کہنا ہے “بھارت واضح طور پر انہیں (شیخ حسینہ کو) بنگلہ دیش کے حوالے نہیں کرنا چاہتا ہے۔”
انہوں نے بتایا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے “ان ملکوں کو کوئی مثبت پیغام نہیں جائے گا جو نئی دہلی کے قریب ہیں۔۔۔ کیونکہ وہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ بالآخر بھارت آپ کی حفاظت نہیں کرے گا۔”
نئی دہلی نے گزشتہ سال مالدیپ میں اپنے پسندیدہ صدارتی امیدوار کو ایک حریف سے ہارتے ہوئے دیکھا، جس نے اقتدار سنبھالتے ہی اسٹریٹجک لحاظ سے اس اہم ملک کو بیجنگ کی طرف مائل کردیا۔
بنگلہ دیش میں حسینہ کے دور حکومت میں جن لوگوں کو مشکلات اور زیادتیوں سے دوچار ہونا پڑا تھا وہ بھارت کے لیے کھلم کھلا دشمنی رکھتے ہیں۔
ہندو قوم پرست بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی میگا فون ڈپلومیسی نے اس دشمنی کو اور بھی بھڑکا دیا ہے۔
مودی نے 84 سالہ نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں حسینہ کی جگہ لینے والی عبوری حکومت کی حمایت کا وعدہ کیا ہے۔
لیکن مودی، جنہیں ان کے متعدد اقدامات نے انہیں قوم پرست ہندووں کا چیمپیئن بنا دیا ہے، نے یونس کی انتظامیہ سے بنگلہ دیش کی ہندو مذہبی اقلیت کے تحفظ کے لیے بھی بار بار زور دیا۔
حسینہ کی عوامی لیگ کو خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی(بی این پی) سے زیادہ بنگلہ دیش کی ہندو اقلیت کی حفاظت کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔
مودی نے مغل دور کی تعمیر کردہ لال قلعے کی فصیل سے یوم آزادی کے روایتی خطاب کے دوران یہ بتانے کی کوشش کی کہ بنگلہ دیشی ہندو خطرے میں ہیں، اور بعد میں یہ معاملہ امریکی صدر جو بائیڈن کے سامنے بھی اٹھایا۔