کابل میں چائے کا کپ پاکستان کو مہنگا پڑ گیا، سابق انتظامیہ کی ’غلطیوں‘ نے حالیہ دہشت گردی میں اضافہ اور معاشی چیلنجز سے منسلک کردیا ،اسحٰق ڈار

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے جو عسکریت پسند رہا کیے، بلوچستان میں دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ ، موجودہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جتنی تعریف کی جائے اتنی کم ہے

وہ وزیر اعظم کی اجازت کے بغیر کابل نہیں جا سکتے تھے،عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ قانون کے مطابق ہو رہا ہے

لندن پاکستان ہائی کمیشن میں منعقدہ پریس کانفرنس میں نائب وزیراعظم و وفاقی وزیر خارجہ اسحق ڈارکا اظہار خیال

ڈاکٹر اختر گلفام ایڈیٹر انچیف نوائے وقت

لندن:کابل میں چائے کا کپ پاکستان کو مہنگا پڑ گیا۔ سابق انتظامیہ کی ’غلطیوں‘ نے حالیہ دہشت گردی میں اضافہ اور معاشی چیلنجز سے منسلک کردیا ۔لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے جو عسکریت پسند رہا کیے، بلوچستان میں دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ موجودہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جتنی تعریف کی جائے اتنی کم ہے۔وہ وزیر اعظم کی اجازت کے بغیر کابل نہیں جا سکتے تھے،عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ قانون کے مطابق ہو رہا ہے۔ان خیالات کا اظہار نائب وزیراعظم و وفاقی وزیر خارجہ اسحق ڈار نے لندن میں پاکستان ہائی کمیشن میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کیا۔نائب وزیراعظم و وفاقی وزیر خارجہ اسحق ڈار نےعمران خان کی حکومت کی جانب سے بالخصوص اقتصادی اور سلامتی کے فیصلوں کے حوالے سے کی گئی کوتاہیوں پر تنقید کی اور سابق انتظامیہ کی ’غلطیوں‘ کو حالیہ دہشت گردی میں اضافہ اور معاشی چیلنجز سے منسلک کردیا۔

اسحق ڈار نے یہ ریمارکس لندن میں پاکستان ہائی کمیشن میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں دیے، جہاں انہوں نے برطانیہ پاکستان تعلقات کے ساتھ ساتھ ملک کی سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال پر بھی بات کی۔

پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے 2021 میں چائے پینے کے لیے کابل جانے والے ایک تھری اسٹار جنرل کے بارے میں اہم بیانات دیے اور اس وقت کے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی طرف سے عسکریت پسندوں کی رہائی کے لیے کیے گئے فیصلوں کو آج ملک بھر میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر سے جوڑ دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت رہا ہونے والے بلوچستان میں دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ تھے۔

انہوں نے ریٹائرڈ جنرل حمید کا نام لیے بغیر کہا کہ ملک افغانستان میں چائے کے اس کپ کی قیمت چکا رہا ہے، یہ حوالہ ایک ویڈیو پر ریکارڈ طالبان کے کابل پر قبضے کے ہفتوں بعد ستمبر 2021 میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے دورہ کابل کا تھا جس دوران ریٹائرڈ جنرل حمید کو ایک کپ چائے پیتے ہوئے دیکھا گیا اور ایک صحافی کے پوچھنے پر یہ انہوں نے جواب دیا تھا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔

اس سوال پر کہ کیا لیفٹیننٹ جنرل حمید اس وقت اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی اجازت سے کابل گئے تھے، اسحق ڈار نے جواب دیا کہ میرے لیے یہ قبول کرنا مشکل ہے کہ وہ وزیر اعظم کی اجازت کے بغیر بھی جا سکتے تھے، ہم آج سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات پر کام کر رہے ہیں، یہ چیزیں وزیراعظم کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔

موجودہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جتنی تعریف کی جائے اتنی کم ہےکیونکہ اس کے ارکان بہت پیشہ ور ہیں، ان کا ایجنڈا پاکستان ہے جیسا کہ ہمارا ہے، یہ بہت اچھا شگون ہے، انہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ کون حکومت میں آتا ہے یا اپوزیشن میں۔

اسحق ڈار نے کہا کہ ان کا دورہ برطانیہ پاکستان کے لیے نتیجہ خیز رہا ہے اور وہ تعلقات کو اسٹریٹجک شراکت داری کی طرف لے جانے کے منتظر ہیں، گزشتہ چند سالوں میں ہمار تعلقات بہتتر نہیں تھے لیکن اب ان میں بہتری آگئی ہے، (سیکرٹری خارجہ) ڈیوڈ لیمی کے ساتھ میری مصروفیت مثبت تھی۔

بڑے عالمی تنازعات اور مسائل بشمول بھارت کے زیر انتظام کشمیر، غزہ اور برطانیہ اور یورپ میں اسلامو فوبیا بھی زیر بحث آئے۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی ٹیم کی رہنمائی اور انتھک کوششوں کی وجہ سے پاکستان کے بین الاقوامی تنہائی میں ہونے کے دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں۔

عمران خان اور ایک سویلین لیڈر پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلائے جانے کے بارے میں سوالات پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے کوئی نیا قانون نہیں بنایا، عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ قانون کے مطابق ہو رہا ہے، جب سیکیورٹی تنصیبات پر حملے کی بات آتی ہے تو یہ معاملہ فوج کے قانون کے تحت آتا ہے، میں اندازہ نہیں لگا سکتا کہ کیا ہوگا، لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کا کیس قانون کے مطابق آگے بڑھے گا۔

اس پر کہ آیا حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ بیک ڈور بات چیت میں مصروف ہے، انہوں نے جواب دیا کہ کوئی بات چیت نہیں ہوئی کیونکہ حکومت کے ہاتھ 9 مئی کے فسادات کے بعد بندھے ہوئے ہیں۔

اس سوال پر کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے سنگین مسائل کے باوجود لندن چھوڑنے کے بعد سے خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔ وزیر خارجہ نے اس تاثر کی تردید کی کہ نواز شریف غیر فعال ہیں، انہوں نے اصرار کیا کہ نواز شریف مسلم لیگ (ن) کی ٹیموں کے ساتھ وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر مشغول ہیں، اور اپنے مشورے اور سفارشات پیش کر رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں