برطانیہ میں فسادات کے بعد ایک تہائی مسلمان عقیدے پر بات کرنے سے گریزاں: سروے

ساٹھ فیصد کے مطابق برطانوی میڈیا کچھ مذاہب کو ’دوسروں کے مقابلے میں زیادہ منفی انداز میں‘ پیش کرتا ہے

41 فیصد نے محسوس کیا کہ تمام مذاہب کو پچھلے مہینے میڈیا نے غلط رنگ دیا ،انسٹی ٹیوٹ فار دی امپیکٹ آف فیتھ آف لائف کی ائع کردہ ایک سٹڈی

ڈاکٹر اختر گلفام ایڈیٹر انچیف نوائے وقت

لندن:(ڈاکٹر اختر گلفام سے) ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں مقیم تقریباً ایک تہائی مسلمان اپنے عقیدے پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
جولائی میں برطانیہ بھر میں فسادات شروع ہونے کے بعد سے اسلام کے بارے میں بات کرنے کے لیے بہت کم لوگ تیار ہیں جسے ایک ماہر نے ’گھبراہٹ کا احساس‘ کہا ہے۔
برطانوی اوکے ٹی وی کے مطابق انسٹی ٹیوٹ فار دی امپیکٹ آف فیتھ آف لائف کی طرف سے شائع کردہ ایک سٹڈی میں 30 اگست اور 1 ستمبر کو سروے کیے گئے جس میں 2835 مسلمانوں میں سے 34 فیصد نے اس بیان سے اتفاق کیا کہ ’میں نے پچھلے چار ہفتوں میں لوگوں کو اپنے عقیدے کے بارے میں بتانے سے گریز کیا ہے۔‘ گذشتہ مہینے کے مقابلے میں یہ 10 فیصد اضافہ ہے۔

ساٹھ فیصد نے یہ بھی محسوس کیا کہ برطانوی میڈیا کچھ مذاہب کو ’دوسروں کے مقابلے میں زیادہ منفی انداز میں‘ پیش کرتا ہے، جبکہ 41 فیصد نے محسوس کیا کہ تمام مذاہب کو پچھلے مہینے میڈیا نے غلط رنگ دیا ہے۔
اس کے علاوہ 47 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ برطانیہ میں میڈیا کو مذہب کی زیادہ کوریج کرنی چاہیے۔

آئی آئی ایف ایل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جیک سکاٹ نے ڈاکٹر اختر گلفام کو فون پر بتایا کہ ’یہ اعدادوشمار برطانوی مسلمانوں میں اس خواہش کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ برطانیہ کے میڈیا میں مذہب پر زیادہ متوازن بحث دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس بحث میں اسلام کی زیادہ نمائندگی کی جائے۔‘

’موسم گرما کے ہنگاموں اور خلفشار کے بعد یہ واضح ہے کہ برطانیہ میں مسلمان اپنے عقیدے کے بارے میں دوسروں کے بات کرنے میں کم محفوظ محسوس کرتے ہیں، جبکہ اکثریت میڈیا کو عقیدے کے بارے میں منفی تاثر پھیلاتے دیکھتی ہے۔‘
عرب-برٹش انڈرسٹینڈنگ کونسل کے ڈائریکٹر کرس ڈوئل نے عرب نیوز کو بتایا کہ برطانوی مسلمانوں نے 9/11 اور 2005 کے لندن بم دھماکوں سمیت دہشت گردی کے بڑے واقعات کے بعد بھی اسی طرح کے رجحانات کا تجربہ کیا ہے۔
’بہت سے لوگوں نے خوفزدہ محسوس کیا، اس وجہ سے کہ برطانوی آبادی میں سے بہت سے لوگ اسلام کو حقیقت میں نہیں سمجھتے، برطانوی مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی طرح سے ہمدردی نہیں رکھتے، اور اجتماعی طور پر ان پر کسی اور کی طرف سے کیے گئے جرائم کا الزام لگا رہے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ ہم اس موسم گرما میں خوفناک انتہائی دائیں بازو کے فسادات کے ساتھ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ برطانوی مسلم کمیونٹی میں گھبراہٹ کے احساس کی واپسی ہے۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں