کیمبرج یونیورسٹی کا پاکستان میں ماحولیاتی تعلیمی پروگرام کا آغاز

یہ پروگرام خاص طور پر پاکستان کے لیے ترتیب دیا گیا ہے، جس میں مقامی موسمیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والے واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے

ڈاکٹر اختر گلفام ایڈیٹر انچیف نوائے وقت

لندن:برطانیہ کی معروف کیمبرج یونیورسٹی نے پاکستان کے لیے ماحولیاتی تعلیم کا پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت طلبہ کو ماحولیاتی تبدیلی اور اس سے نمٹنے کے طریقوں کے بارے میں تعلیم دی جائے گی۔

کیمبرج یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ایجوکیشن گروپ نےاعلان کرتے ہوئے کہا کہ نئی نسل اور آنے والی نسلوں کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اس پر قابو پانے کی حکمت علمی کے بارے تعلیم و تربیت فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

کیمبرج کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ’کیمبرج کلائمیٹ کوئسٹ‘ کے نام سے یہ مفت، ڈھائی گھنٹے کا آن لائن کورس پاکستان کے تمام تعلیمی بورڈز کے طلبہ کو موسمیاتی تبدیلی اور پائیدار مستقبل کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ضروری معلومات اور مہارتیں فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے مطابق یہ پروگرام خاص طور پر پاکستان کے لیے ترتیب دیا گیا ہے، جس میں مقامی موسمیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والے واقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے، جیسے 2010 کا تباہ کن سیلاب، 2017 کی شدید گرمی کی لہر، اور لاہور کی مسلسل فضائی آلودگی۔

اس میں سیلاب سے بچاؤ کے منصوبوں سمیت وہ پالیسیز بھی شامل ہیں جو حکومت نے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے اور ان کے اثرات کو کم کرنے کے لیے تیار کی ہیں۔

کیمبرج میں بین الاقوامی تعلیم کے گروپ منیجنگ ڈائریکٹر روڈ سمتھ نے موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے میں تعلیم کے اہم کردار پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’تعلیم ایک طاقتور آلہ ہے، لیکن آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے میں اس کی صلاحیت ابھی تک استعمال نہیں کی گئی ہے۔‘

کلائمیٹ کوئسٹ پروگرام کے علاوہ، کیمبرج تین سے 19 سال کے طلبہ کے نصاب میں موسمیاتی تبدیلی کی تعلیم شامل کر رہا ہے۔

یہ کثیر الجہتی نقطہ نظر صرف روایتی مضامین جیسے جغرافیہ اور سائنس تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس میں وہ اقدار، مہارتیں اور رویے بھی شامل ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔

اس موقع پر تعلیم کے میدان میں تجربہ کار ماہرین کے ساتھ پینل گفتگو بھی منعقد ہوئی جس میں ان کا مستقبل کے چیلنجوں جیسے کہ مصنوعی ذہانت سے نمٹنے پر زور دیا۔ ان کا اصرار تھا کہ بقوں میں تنقیدی سوچ کو فروغ دینا بھی انتہائی اہم ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں