برطانیہ: کشمیر کانفرنس میں بھارت اور پاکستان دونوں پر تنقید

برطانوی پارلیمانی اراکین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اظہارتشویش

ڈاکٹر اختر گلفام ایڈیٹر انچیف نوائے وقت

لندن:پاکستان اور بھارت دونوں کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں برطانیہ کے دارالعوام کی کمیٹی نمبر 10 کے زیر اہتمام ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ تقریب کا انعقاد یونائٹڈ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی اور لیبر پارٹی کے رکن دارالعوام رچرڈ برگون نے کیا تھا۔

کانفرنس کا انعقاد ایک ایسے موقع پر کیا گیا جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی نے حال ہی میں ایک قرارداد پاس کرکے نئی دہلی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ متنازع علاقے کی خصوصی حیثیت کو بحال کرے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس بحالی کے حوالے سے بھارتی حکومت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ کانگریس اور دوسری جماعتوں نے بھی بحالی کی حمایت کی ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی حکومت کی طرف سے کئی ایسی اقدامات کیے جا رہے ہیں جن پر انسانی حقوق کے کارکن اور کشمیری سیاستدان کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے لیڈز سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ فابیان ہیملٹن نے کہا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی مسئلہ کشمیر ابھی بھی موجود ہے۔ انہوں نے تقریب کے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ”آپ کی جدوجہد انصاف کے لیے ہے اور یہاں پر اراکین اسمبلی کی موجودگی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘

فابیان ہیملٹن کا کہنا تھا کہ جب تک دنیا میں کوئی ایک بھی مظلوم باقی ہے یا دنیا میں کوئی ایک بھی انسان آزاد نہیں ہے اس وقت تک یہ دنیا آزاد نہیں ہے۔

برطانیہ کے علاقے مڈلز برا سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ اینڈی میک ڈونلڈ کا کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ ان کے علاقے کے رائے دہندگان کے لیے ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ ”مجھے معلوم ہے کہ اس مسئلے کی وجہ سے لوگوں کی بنیادی آزادیاں اور حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ ہماری ایک تاریخی ذمہ داری ہے کہ ہم اس مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کریں۔‘‘

برمنگھم سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان محمد ایوب کا کہنا تھا کہ کشمیر کا موازنہ فلسطین کے مسئلے سے کیا جا سکتا ہے۔ ” کشمیر ایک ملٹرائیزڈ یا عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقہ ہے جہاں سیاسی کارکنوں کو قید کیا جاتا ہے اور عوام کے حقوق کو چھینا جاتا ہے۔‘‘

محمد ایوب نے برطانیہ کو یاد دلایا کہ دنیا ان کو امید کی کرن سمجھتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ” برطانوی پارلیمنٹ کو روشنی کا مینارہ تصور کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو صرف منظور نہیں کیا جائے بلکہ ان پر مؤثر انداز میں عمل درامد کیا جائے۔‘‘

محمد ایوب کے مطابق اس کے علاوہ مظلوم اقوام کی مدد کے لیے عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں پر بھی سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔

اس برطانوی ایم پی نے حاضرین کو یقین دہانی کرائی کہ برطانوی پارلیمنٹ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے جو کچھ کر سکتی ہے وہ کرے گی۔

ڈیوز بری سے تعلق رکھنے والے آزاد رکن پارلیمنٹ اقبال محمد کا کہنا تھا کہ ان کے رائے دہندگان میں سے کئی کا تعلق بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہے، جہاں ان کے بقول نا انصافیوں اور ظلمتوں کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ”لیکن برطانوی حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے اتنا مؤثر کردار ادا نہیں کیا جتنا کہ اسے کرنا چاہیے تھا۔‘‘

ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے عسکری امور کے ماہر جنید قریشی کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سنگین غلطیاں کی ہیں۔ ”وہ کہتے ہیں، ”لیکن یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت کو متنازع علاقے میں آنے کی دعوت وہاں کے حکمرانوں نے دی تھی جبکہ پاکستان نے کشمیر کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا۔‘‘

س موقع پہ خطاب کرتے ہوئے یونائٹڈ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے چیئرمین شوکت علی کشمیری نے کہا کہ ان کی پارٹی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی میں منظور ہونے والی قرارداد کی حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا، ”ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کشمیر کے سارے حصوں کو متحد کیا جائے۔ اس کی خصوصی حیثیت کو بحال کیا جائے۔‘‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں